تعلیم

استاد کا احترام۔Respect for the) teacher):

استاد کے احترام پر مضمون۔

کسی بھی عنوان یا مضمون میں ہم اس موضوع کو کھل کر وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ پڑھنے والا آسانی سے سمجھ لے۔اج ہم استاد کے احترام کے مضمون پر بات کریں گے۔

استاد اور تعلیم لازم و ملزوم ہیں۔استاد کے بغیر انسان ادھورا ہے کیونکہ جب انسان اپنی عقل سے علم حاصل کرتا تو وہ اپنی مرضی کا مطلب حاصل کرتا ہے۔

اپنی تعلیم میں، اُستاد یا مُعلمِ وہ ہے جو متعلم یا طالب علم کی مدد و معاونت و رہنمائی کرتا ہے۔ غرض یہ کہ درس گاہ کوئی بھی ہو، معلم کے بغیر درس گاہوں کا تقدس بالکل ایسا ہی ہے، جیسا کہ ماں کے بغیر گھر۔ ایک معلم سیکھنے کے عمل میں انتہائی موثر و مستند راہبر ثابت ہوتا ہے

استاد کا احترام

اساتذہ کا احترام بہت ضروری ہے کیونکہ وہ طلباء میں جذباتی ذہانت، مسائل حل کرنے اور سماجی مہارتوں کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

  اساتذہ اپنے طالب علموں کے لیے رول ماڈل کے طور پر کام کرتے ہیں، دیانتداری، احترام اور ایمانداری جیسے رول ماڈلز ہوتے ہیں۔

استاد ک تعریف؟

استاد وہ جو اپنا علم جو اس کے دل و دماغ میں ہوتا ہے اس کو اپنے شاگرد کی طرف منتقل کرتاہے۔

استاذ کے ادب کے فوائد:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”میں تمہارے لیے باپ کی حیثیت رکھتا ہوں کہ تمہیں علم و حکمت سِکھاتا ہوں۔” استاذ کا درجہ باپ کے برابر ہے۔

بقول شاعر۔

ادب ایک کرینہ ہے ادب کے کرینوں میں،

استادِ ایک نگینہ ہے جنت کے نگینوں میں۔۔

ولدین بولنا سکھاتے ہیں اور استاد کب بولنا،کہاں بولنا اور کیسے بولنا سکھاتے ہیں۔والدین کے ساتھ ساتھ روحانی باپ(استاد)کا بہت درجہ ہے۔

حضرت امام زین العابدین نے استاد کے بہت سارے حقوق بیان کئے ہیں جن میں 6 حقوق درج ذیل ہیں:

(1)اَلتَّعْظِیْمُ لَہُ:استاد کا احترام کرو۔

(2)وَلَا تُحَدِّثُ فِیْ مَجْلِسِہٖ اَحَدًا:دورانِ کلاس استاد کے سامنے آپس میں بات نہ کرو۔

(3)وَاَنْ تَدْفَعُ عَنْہُ اِذَا ذُکِرَ عِنْدَکَ بِسُوْءٍ:اگر کوئی استاد کی برائی کر رہا ہو تو اپنے استاد کا دفاع کرو۔

(4)وَاَنْ تَسْتُرْ عُیُوْبَہُ وَتُظْھِرْ مَنَاقِبَہُ:اپنے استاد کے عیب چھپاؤ اور اپنے استاد کے اوصاف ظاہر کرو یعنی بیان کرو۔

(5)اَکْرِمِ الْاُسْتَاذَ وَلَوْ کَانَ فَاسِقًا:استاد کا احترام کرو چاہے وہ فاسق ہی کیوں نہ ہو۔

(6)وَلَا تُجِیْبَ اَحَدًا یَسْئَلُہُ عَنْ شَیْئٍ حَتّٰی یَکُوْنَ لَہُ ھُوَ الَّذِی یُجِیْبُ:استاد کی موجودگی میں اگر کوئی شخص سوال کرے تو استاد محترم سے پہلے جواب نہ دو۔ 

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اپنے استاد کے ادب کی وجہ سے استاد کا نام نہ لیتے تھے بلکہ کنیت سے پکارتے تھے۔

استاد روحانی باپ ہوتا ہے جیساکہ علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا!

جوشخص لوگوں کو علم سکھائے وہ بہترین باپ ہے کیونکہ وہ بدن کا نہیں روح کا باپ ہے۔(والدین،زوجین اور اساتذہ کے حقوق،ص91)اسی حوالے سے ایک مقام پرنبیِ اکرم ﷺ نے فرمایا:میں تمہارے لیے باپ کی حیثیت رکھتا ہوں میں تمہیں علم سکھاتا ہوں۔(ابو داود، 1/37،

شاگرد کو چاہیے کہ اپنے استاد کے بارے میں ہمیشہ مثبت سوچ رکھے۔استاد کے کسی بھی عمل کے بارے میں کوئی بدگمانی نہ کرے۔علم کا فیضان ہی تب نصیب ہوتا ہے جب ظاہری کے ساتھ باطنی طور پربھی استادکا ادب کیا جائے

استاد کو ہمیشہ دعاؤں میں یاد رکھے۔امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:میں جب بھی اپنے والدین کے لیے دعا کرتا ہوں تو اپنے استاد کے لیےضرور دعا کرتا ہوں۔

امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:میں اپنے والدین سے بھی پہلے استاد کے لیے دعا کرتا ہوں۔

استاد کے احترام پر حدیث:

ما وصل من وصل الا بالحرمۃ وما سقط من سقط الا بترک الحرمۃ ترجمہ:جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے سے کھویا۔۔

واقعہ عظمت استاد:

استاد کے حقوق:حضرت سہل بن عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے کوئی سوال پوچھتا تو آپ پہلو تہی فرمایا کرتے تھے۔ایک مرتبہ اچانک دیوار سے پشت لگاکر بیٹھ گئے اور لوگوں سے فرمایا:آج جو کچھ پوچھنا چاہو مجھ سے پوچھ لو،

لوگوں نے عرض کی:حضور!آج یہ کیا ماجرا ہے؟آپ تو کسی سوال کا جواب ہی نہیں دیا کرتے!فرمایا:جب تک میرےاستاد حضرت ذوالنون رحمۃ اللہ علیہ حیات تھے،اس لئے ان کے ادب کی وجہ سے جواب دینے سے گریز کیا کرتا تھا۔ 

لوگوں کو اس جواب سے مزید حیرت ہوئی کیونکہ ان کے علم کے مطابق حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ ابھی حیات تھے۔بہرحال آپ کے اس جواب کی بنا پر فوراً وقت اور تاریخ نوٹ کرلی گئی۔جب بعد میں معلومات کی گئیں تو واضح ہوا کہ آپ کے کلام سے تھوڑی دیر قبل ہی حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوگیا تھا۔

بقول شاعر۔

کتنی مشقتوں سے پہلا سبق پڑھایا

میں کچھ نہ جانتی تھی مجھے سب کچھ سکھایا۔۔

استاد کی اقسام:

1.دینی استاد۔

2.دنیاوی استاد

دینی استاد روحانی استاد کی حیثیت رکھتا ہے اسکا ادب و احترام بہت ضروری ہے۔کیونک استاد ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکم اور حدیث کا علم سکھاتے ہیں ہماری آخرت کو بہتر بناتے ہیں

دنیاوی استاد کا بھی ادب و احترام ہم پر فرض ہے استاد ہمیں جینے کا طریقہ سکھاتا ہے اچھے اور برے میں فرق سکھاتا ہے معاشرے میں رہنا سکھاتا ہے۔

اپنے استاد کا احترام کریں۔

1.استاد کے آگے نہ بولو

2.استاد کے آگے نہ چلو۔

3.اگر استاد ہزار بار بھی کوئی بات بتا رہا تو توجہ سے سنو۔

4.بات نہ کاٹو۔

5۔غلط نہ کہو انکی بات کو

آپ کی تعلیم آپ کی ترقی کا بہت اہم حصہ ہے۔  اساتذہ آپ کی زندگی کا ایک بڑا حصہ ہیں، آپ کے باقاعدہ اسکول کے اساتذہ سے لے کر آپ کے ٹیوٹرز اور مارشل آرٹس کے اساتذہ تک۔ 

وہ آپ کو وہ تمام چیزیں سیکھنے میں مدد کرتے ہیں جو آپ کو زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے جاننے کی ضرورت ہے۔  اساتذہ کی محنت اور لگن کے بغیر، نئی چیزیں سیکھنا بہت زیادہ مشکل ہوگا۔

کامیاب استاد کون ہے؟

 جو استاد اپنے پیشہ کے ساتھ مخلص ہو وہ کامیاب استاد ہوتا ہے دنیا میں بھی آخرت میں بھی

طلباء کو ان کے کام کو سیکھنے اور سمجھنے میں مدد کرنے میں کافی وقت اور محنت درکار ہوتی ہے۔  اس لیے تمام اساتذہ آپ کے احترام کے مستحق ہیں۔

  وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اپنی پوری کوشش کرتے ہیں کہ آپ کو بہترین تعلیم حاصل ہو، اس لیے یہ آپ کا کام ہے کہ انھیں وہ احترام اور توجہ دیں،

جس کی انھیں آپ کو سیکھنے میں مدد کرنے کی ضرورت ہے۔  تھوڑا سا احترام کرنا آپ کے اسباق کو مزید پرلطف، پرجوش اور مزہ آتا ہے

 میں اپنے استاد کا احترام کیسے ظاہر کروں؟

 اپنے اساتذہ کا احترام کرنے کا بہترین طریقہ ان کی بات سننا اور ان کی ہدایات پر عمل کرنا ہے۔  اساتذہ جانتے ہیں کہ اسباق لمبے ہو سکتے ہیں، اور توجہ مرکوز کرنا مشکل ہو سکتا ہے، خاص طور پر چھوٹے طلباء اور طالب علموں کے لیے جنہیں سیکھنے میں دشواری ہوتی ہے۔

 لیکن اگر آپ ان کو بہت قریب سے سنتے ہیں، تو آپ کو معلوم ہو سکتا ہے کہ ان کے اسباق آپ کی توقع سے کہیں زیادہ دلچسپ ہیں۔  درحقیقت، آپ کا سبق تیز تر ہو سکتا ہے، اور آپ کو تفریحی سرگرمیوں پر خرچ کرنے کے لیے زیادہ وقت بھی مل سکتا ہے، اگر آپ پہلے مناسب طریقے سے سننے کے لیے وقت نکالیں۔

 سننا آپ کے استاد کا احترام ظاہر کرنے کا ایک بڑا حصہ ہے۔  اس کا مطلب ہے کہ آپ کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ آپ اپنے اسباق کے دوران بات نہیں کر رہے ہیں یا دوسرے طلباء کی توجہ ہٹا رہے ہیں۔ 

اپنی تعلیم کا احترام کرنا:

 اپنے استاد کا احترام کرنا آپ کے بہترین طالب علم بننے کا صرف پہلا قدم ہے، آپ کو اپنے سیکھنے کی جگہ اور اپنے ساتھی طلباء کا بھی احترام کرنے کی ضرورت ہے۔

  جب آپ اپنی مارشل آرٹس پریکٹس ختم کر لیتے ہیں، تو آپ سے سیکھنے کی جگہ صاف کرنے میں مدد کے لیے کہا جا سکتا ہے۔  اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اپنے استاد اور اس جگہ کی قدر کرتے ہیں جو وہ آپ کے ساتھ بانٹتے ہیں۔

 دوسرے طلباء کا احترام کرنا اپنے استاد کا احترام ظاہر کرنے کا ایک اور اہم طریقہ ہے۔  اگر آپ کلاس میں توجہ نہیں دیتے ہیں، تو آپ کے استاد کو آپ کو چیزوں کی وضاحت کرنے میں زیادہ اور تفریحی سرگرمیوں پر کم وقت دینا پڑے گا۔ 

اس سے ہر ایک کی تعلیم میں خلل پڑتا ہے اور یہاں تک کہ پورے سبق میں خلل پڑ سکتا ہے۔  یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ آپ اپنے سبق اور ان کے وقت کی قدر کرتے ہیں، یقینی بنائیں کہ آپ ان کی ہدایات کو بہت غور سے سنتے ہیں۔

 احترام باہمی ہے۔

استاد کا احترام

 احترام باہمی ہے۔  اس کا مطلب ہے کہ آپ کا استاد آپ کا احترام کرتا ہے، اس لیے وہ توقع کرتے ہیں کہ آپ بدلے میں ان کا احترام کریں گے۔ 

 وہ اپنے اسباق کو سیکھنے میں آسان بنانے کے لیے احتیاط سے منصوبہ بندی کرتے ہیں اور وہ آپ کے تمام سوالات کو سنتے ہیں،

یہ صرف کچھ طریقے ہیں جن سے آپ کا استاد ہر روز آپ کا احترام کرتا ہے۔  ان کا احترام ظاہر کرنے کے لیے، آپ کو انہیں وہی توجہ اور تعریف دینے کی ضرورت ہے جو وہ آپ کو دکھاتے ہیں۔

 سیکھنا ہمیشہ پرلطف، پُرجوش اور لطف اندوز ہو سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ کا استاد استاد بن گیا!  لیکن یاد رکھیں، ان میں سے کوئی بھی احترام کے بغیر ممکن نہیں ہے، لہذا اپنے تمام اساتذہ کو وہ احترام دیں جو انکا حق بنتا ہے

پاکستان کی دس بہترین میڈیکل کالجز کے بارے میں جاننے

ہم اپنے استاد کا احترام کیسے کر سکتے ہیں؟

 اپنی، استاد اور دوسروں کی عزت کریں۔  …

 دی گئی ہدایات پر عمل کریں۔

 توجہ دیں، شرکت کریں اور سوالات پوچھیں۔  …

 ایک مثبت تعلیمی ماحول کو محفوظ رکھیں۔  …

 اپنے اعمال کی ذمہ داری لیں۔  …

 سیل فون اور الیکٹرانک آلات بند کر دیں۔  …

 پانی کے علاوہ کوئی کھانا پینا نہیں ہے۔  …

 وقت پر کلاس میں پہنچیں اور سیکھنے کے لیے تیار ہوں۔

بقول شاعر۔

؎شیخِ مکتب ہے اک عمارت گر

جس کی صنعت ہے روحِ انسانی.

انسان جس سے بھی کچھ سیکھے اس کا احترام فرض ہے۔ اگر سیکھنے والا ، سکھانے والے کا احترام نہیں کرتا تو وہ علم محض ’’رٹا‘‘ ہے۔ حفظ بے معرفت گفتار ہے.

حدیث استاد کے احترام کے بارے میں۔

ترجمہ۔

میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں

رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کو معلم کہا۔ آپ ؐ کے شاگرد یعنی آپ ؐ کےصحابہ ؓ آپ ؐ کا کتنا احترام کرتےتھے ۔ دنیا کی تاریخ ایسی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔

دوستو! احترامِ استاد ایک عظیم جذبہ ہے۔ حضرت علی ؓ کا فرمان ہے کہ:۔

’’جس شخص سے میں نے ایک لفظ بھی پڑھا میں اس کا غلام ہوں۔ چاہے وہ مجھے بیچ دے یا آزاد کردے‘‘

 خلیفہ وقت ’’ہارون الرشید ‘‘نے معلم وقت امام مالک سے درخواست کی کہ وہ انہیں حدیث پڑھا دیا کریں۔ امام مالک نے فرمایا :۔

’’علم کے پاس لوگ آتے ہیں ۔ علم لوگوں کے پاس نہیں جایا کرتا ۔ تم کچھ سیکھنا چاہتے ہو تو میرے حلقہ درس میں آسکتے ہو‘‘ ۔

 خلیفہ آیا اور حلقہء درس میں دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔ عظیم معلم نے ڈانٹ پلائی اورفرمایا:۔

 خدا کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ بوڑھے مسلمان اور اہل علم کا احترام کیا جائے ۔ یہ سنتے ہیں خلیفہ شاگردانہ انداز میں کھڑا ہوگیا ۔

۔سکندر استاد کا بے حد احترام کرتا تھا ۔ کسی نے اس سے اس کی وجہ پوچھی تو سکندر نے جواب دیا:

          ’’میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا ۔ جبکہ میرا استا د ’’ارسطو‘‘ مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا ۔ میرا باپ باعث حیات ِ فانی ہے اور استاد موجب حیات جاوداں ۔ میر ا باپ میرے جسم کی پرورش کرتا ہے اور استاد میری روح کی.

استاد کی تعظیم اور شاگرد پر لازم ہے کہ استاد کو تعظیم کرنا بھی ضروری ہے اور علم کے بغیر تو ممکن نہیں ہوتا کہ فیضانِ علم سے غمگین ہو اسے سمجھے:

باادب بانصیب، بے ادب بے نصیب“۔

مزید خبروں کے لیے کک کریں۔

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button